جل چُکے خوابوں کی راک گرم ہے ابھی
پھتر دل مرا کچھ نرم ہے ابھی
دل توڑ کے وہ سامنے نہیں آتے
لگتا ہے کہ باقی اُس میں شرم ہے ابھی
جب توٹے گے تو خودی لوٹ آئوں گا
اُس کے لوٹنے کے دل میں برہم ہے ابھی
تجھ سے کہتا ہوں راہِ عشق پے نہ چل
تُو نادان ہے تُو کم سن ہے ابھی
اُسے بُھلانا مشکل بہت ہے یارا
کیونکہ جوان اُس کے دیئے زخم ہے ابھی
ہر خواب پلکوں میں ہی بہہ جاتا ہے
ہجر کے فراق کے پلکوں میں نم ہے ابھی
اُس سے کہو اور دے دردِ محبت مجھے
مرے پاس اُس کی یادیں کم ہے ابھی
گستاخیاں غلطیاں اکثر کر جاتے ہیں
معشوم و نادان مرے صنم ہے ابھی
کرو پھر سے مجھ پے جان لیوا وار
کچھ ترے عاشق میں دم ہے ابھی
میں کیونکر ترے فراق سے گبھرائوں
کہ وصل کا مجھ میں برہم ہے ابھی
نہال ترے انتظار سے رشتہ کیسے توڑوں
جان باقی ہے کُھلی شوقِ چشم ہے ابھی