جلا بھی رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا
چراغ شب کی رفاقت نے دل کو شاد کیا
جلن کے مارے گلوں نے کیا تھا ہنگامہ
حسد تھا تجھ سے تو خوشبو نے بھی فساد کیا
چمن سےمجھ کو عداوت جو تھی،تری خاطر
ترے لئے ہی ہواوں سے بھی عناد کیا
کسی زیاں کو کبھی میں نہ لایا خاطر میں
تُمہارے واسطے قربان ہر مفاد کیا
چلا فراق کی دشوار رہ پہ بھی اظہر
ترے وصال کی منزل کو جو مراد کیا