جلوے کیا کیا دِکھاتی رہی چاندنی
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreجلوے کیا کیا دِکھاتی رہی چاندنی
میرے دل کو لُبھاتی رہی چاندنی
ہجر کی رات غم تھا جو تنہائی کا
میرے غم کو بِتاتی رہی چاندنی
سازِ فطرت پہ مدھم سی آواز میں
دیر تک گنگناتی رہی چاندنی
تیری یادوں کی خوشبو مہکتی رہی
رات بھر مسکراتی رہی چاندنی
تیری آنکھوں کے تارےچمکتے رہے
صبح تک جگمگاتی رہی چاندنی
لے کےکرنیں ترے مطلعِ نور کی
اور پھر جھلملاتی رہی چاندنی
چھیڑ خوباں سے کرتی چلی ہی گئی
لطف کیا کیا اُٹھاتی رہی چاندنی
آپ بھی ہنس کے باتیں سناتی رہی
مجھ کو بھی گُدگُداتی رہی چاندنی
میں تھا صحرا میں خاموش بیٹھا ہوا
کیوں یہ مجھ کو بُلاتی رہی چاندنی
کچھ سنورتی رہی کچھ بکھرتی رہی
ساتھ میرا نبھاتی رہی چاندنی
چاند کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر
تیری باتیں بتاتی رہی چاندنی
چاند کی شبنمی روشنی کے تلے
گل یہ کیا کیا کھلاتی رہی چاندنی
نام لے لے کے تریا میں پیتا رہا
جام بھر بھر پلاتی رہی چاندنی
میں تو پی کر کبھی لڑکھڑایا نہ تھا
رات بھر لڑکھڑاتی رہی چاندنی
کیسے کیسے حسیں خواب آتے رہے
پیار سے تھپتھپاتی رہی چاندنی
ذہن میں شعر کیا کیا اُچھلتے رہے
اور مجھ کو نچاتی رہی چاندنی
چاند بھی گیت گاتا رہا شوق سے
وجد میں آتی جاتی رہی چاندنی
رقص کرتی رہی رات بھر کائنات
اِک قیامت اُٹھاتی رہی چاندنی
آسماں کو تھی سر پہ اُٹھائے ہوئے
شور اتنا مچاتی رہی چاندنی
صبح میں نے جو دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا
خواب کیا کیا دِکھاتی رہی چاندنی
دیکھ کر آج مجھ کو تمہارے بِنا
ہم پہ باتیں بناتی رہی چاندنی
چاند کے ساتھ مل کر مجھے دوستو
آگ بن کر جلاتی رہی چاندنی
دل کے داغوں سے شعلے اُٹھاتی رہی
آگ دل میں لگاتی رہی چاندنی
دل کے زخموں پہ میرے وہ ہنستی رہی
یوں بھی دل کو دُکھاتی رہی چاندنی
چاند کا واسطہ اُس کو دیتا رہا
پھر بھی مجھ کو ستاتی رہی چاندنی
جو بھی ملتا تھا اُس کو مرے عشق کے
جھوٹے قصے سناتی رہی چاندنی
بیٹھ کر پیار کی سیج پہ جانِ مَن
نخرے کیا کیا دِکھاتی رہی چاندنی
خود بھی روتی رہی یاد کر کے تمہیں
ساتھ مجھ کو رُلاتی رہی چاندنی
دل کے تاروں کو جب میں نے چھیڑا و سیم
کیا کیا تانیں اُڑاتی رہی چاندنی
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






