آج کی رات غم دوست میں شدت ھے بہت
جن سے الفت تھی بہت ان سے شکایت ہے بہت
کتنی یادیں ہیں چلی آتی ہیں کمزور و نڈھال
غَمِ جاناں کی کشا کش غَمِ دوراں کے سوال
چاند کو چھونے کی خواہش انہیں پانے کا خیال
بے شمار آرزوئیں حسرت و ارمان وصال
عمر اپنی انہی بیکار خیالوں میں دھری
چھا گیا پھر انہی خابیدا نگاہوں کا فسوں
ذہن میں کھلنے لگے پھر تیری یادوں کے کنول
آج پھر ہونٹ تصور میں تیرے چوم لیے
جذبہء شوق سے ہونے لگیں پلکیں بوجھل
ہاے ٹوٹی ہے کہاں جا کے خیالوں کی کمند
ہائے رنگینی ایام کہاں سے لاؤں
عیش و عشرت کا وہ اک جام کہاں سے لاؤں
رندی حافظ و خیام کہاں سے لاؤں
وہ حسین صبح وہ حسین شام کہاں سے لاؤں
میرے آوارہ خیالو مجھے سو جانے دو