جن میں آ جائیں کبھی رنگ زمانے والے
دوست بن جاتے ہیں وہ دل کو جلانے والے
میں نے جن کیلے گھر چھوڑ دیا تھا اپنا
میری میت پہ ہیں وہ جشن منانے والے
صفِ ماتم پہ جو ہمدرد بنے بیٹھے ہیں
تھے یہی لوگ مرے گھر کو جلانے والے
ہاتھ کا میں نے نوالہ بھی جنہیں بخش دیا
ہیں مری قبر سے وہ مٹی چرانے والے
کس طرح کوئ مقام اپنا بنا پاتا میں
سارے ہی دوست ملے مجھ کو دبانے والے
بس اسی تلخ حقیقت نے مجھے مار دیا
لوٹ کر آتے نہیں چھوڑ کے جانے والے
دوستوں سے تو وہ دشمن بھی بھلے ہیں باقرؔ
قبر تک لے کے مجھے کندھوں پہ آنے والے