جن کے لیے جاگے ہم ساری رات
وہ سوئے رہے ہماری آغوش میں
وہ جن کے لیے قلم کروا دیا سر اپنا
وہ بنتے رہے گے سو ہماری ہوش میں
خون دے کر روشن کیے تھے چراغ
وہ کرتے رہے گُل ان کو اپنے جوش میں
ہم تڑتے رہے کانٹوں کی نوک پر
وہ رہے مد ہوش خوابَ خرگوش میں
ان کی یہ ادا بھی ہمیں بہت پسند آئی
ہم چل بسے وہ رہے ڈھونتے ہواؤں کے دوش میں
مقصود عشق کی یہی معراج ہوتی ہے
عاشق اجڑ جائے مشعوق پھرے اپنے شور میں