جنت میں کوئی گھر بھی بنایا نہیں ہوتا
گر ہم پہ بھی رحمت کا یہ سایہ نہیں ہوتا
گر ہم کو نگاہوں کے سمندر سے پلاتے
دریا میں بھی دل آج یوں پیاسا نہیں ہوتا
اس عشقِ نشانی کو کئی بار میں پڑھتی
خط میری وفاؤں کا جلایا نہیں ہوتا
یوں آگ لگانا بھی تو اپنوں کا کرم ہے
حالات کا کوئی بھی ستایا نہیں ہوتا
ہاں ہوتا ہے ایسا بھی کہ کھانے کو نہیں ہے
اور رہنے کو گھر میں بھی کرایہ نہیں ہوتا
رہتا ہے تبسم بھی کڑی دھوپ میں لب پر
جب شکوہ کوئی لب پہ وہ لایا نہیں ہوتا
کچھ لوگ سدا مجھ سے خفا رہتے ہیں وشمہ
دیدارِ محبت بھی کرایا نہیں ہوتا