جنہیں خوابوں سے پہرے باغی دیکھے
اُس رات کے سویرے باغی دیکھے
نیتیں بھی جیسے نانگن تھی سبھی
میں نے کئی سپیرے باغی دیکھے
وہ تو نبھانے کی مشکل میں رہہ گیا
جس نے وعدے تیرے باغی دیکھے
کس رنجش نے پھر ساتھ بکھیر دیا
کہ تیرے شہر میں ڈیرے باغی دیکھے
اُداسیوں پہ بھی مسکان سجتی رہی
ویسے تو چہروں کے چہرے باغی دیکھے
کوئی پھولوں کے ساتھ کانٹے بو گیا
کہ بھنوروں کے بھیرے باغی دیکھے
میں وہی ہوں، مگر وہ نہیں سنتوشؔ
کہ کچھ خیال بھی میرے باغی دیکھے