جنہیں زمانے میں ہر سُو خراب لکھتے ہیں
بڑے وثوق سے تم کو آداب لکھتے ہیں
ترے بنا جو کٹی رات وہ اذیت ہے
ترے بنا جو کٹا دن عذاب لکھتے ہیں
کبھی ذہن میں جو آئی ہے بات جلووں کی
تری تجلی کو ہم آفتاب لکھتے ہیں
جو ذکر مستی کا آ جائے ان خیالوں میں
تری نگاہ کو جامِ شراب لکھتے ہیں
ہمارے لفظوں میں خوشبو سی پھیل جاتی ہے
تمہارے جسم کو جب بھی گلاب لکھتے ہیں
وہ جس ٹوٹنے کا آج تک ہے پچھتاوا
تمہاری چاہ کو دلکش سا خواب لکھتے ہیں
پرانے زخموں سے ہوتا ہے پھر لہو جاری
غمِ حیات کی جب بھی کتاب لکھتے ہیں