جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
Poet: A.R Ajiz By: Muhammad Ashfaq Raza, Lahoreجو آج وہ میر سامنے ہوتی نہ چاند میں یوں چاندنی ہوتی
ماند پڑ جاتا چاند بھی جب ہر سو میرے چاند کی روشنی ہوتی
یہ تارے یہ ماہ پارے یہ کہکشاں یہ نظارے
نہ ہوتے ہم کو یوں پیارے جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
نہ گزرے گا تجھ بن یہ سفر سہنا ہے مشکل غم ہجر
کہتا دکھا دو جلوہ اک نظر جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
چہرہ شبنمی گلاب ہو جیسے آنکھیں کسی شاعر کا خواب ہو جیسے
کہتا خیالوں میں آتی ہو ایسے جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
کہتا آج رت ہے بڑی مستانی ہم پہ کرو اک اور مہربانی
چلو تو ذرا چال مستانی جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
رکتا بہتی ندی کا پانی دیکھ کے تیری چال مستانی
کہتا لگتی ہو کتنی دیوانی جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
سمو لیتا دل و جگر میں نقش رہتا میری نظر میں
اتار لیتا آنکھوں کے رستے جگر میں جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
زلفوں کی چھاؤں میں بٹھا لے جدائی کے سب غم بھلا دے
کہتا عاجز کو نظروں سے پلا دے جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






