جو آج وہ میر سامنے ہوتی نہ چاند میں یوں چاندنی ہوتی
ماند پڑ جاتا چاند بھی جب ہر سو میرے چاند کی روشنی ہوتی
یہ تارے یہ ماہ پارے یہ کہکشاں یہ نظارے
نہ ہوتے ہم کو یوں پیارے جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
نہ گزرے گا تجھ بن یہ سفر سہنا ہے مشکل غم ہجر
کہتا دکھا دو جلوہ اک نظر جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
چہرہ شبنمی گلاب ہو جیسے آنکھیں کسی شاعر کا خواب ہو جیسے
کہتا خیالوں میں آتی ہو ایسے جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
کہتا آج رت ہے بڑی مستانی ہم پہ کرو اک اور مہربانی
چلو تو ذرا چال مستانی جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
رکتا بہتی ندی کا پانی دیکھ کے تیری چال مستانی
کہتا لگتی ہو کتنی دیوانی جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
سمو لیتا دل و جگر میں نقش رہتا میری نظر میں
اتار لیتا آنکھوں کے رستے جگر میں جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
زلفوں کی چھاؤں میں بٹھا لے جدائی کے سب غم بھلا دے
کہتا عاجز کو نظروں سے پلا دے جو آج وہ میرے سامنے ہوتی