جو آیا زیست میں افتاد بن کر
رہے گا کب تلک بے داد بن کر
مسلماں ہوگئے کمزور اتنے
دیں ان کا رہ گیا الحاد بن کر
تمنّائیں رکھو محدود اپنی
نہیں ملتا ہے کچھ شدّاد بن کر
نہ پوری خواہشیں ہو پائیں میری
زباں پر رہ گئیں فریاد بن کر
نرالا اُس کا ہے طرزِ محبّت
ہے رہتا دل میں لیکن یاد بن کر
ثباؔت اک طائرِ بے بس تھا جس کو
شکار اُس نے کیا صیّاد بن کر