جو ادائے صنم کے منکر ہیں
وہ کسی اور غم کے منکر ہیں
کفر تو ہم پہ ہو گیا واجب
تیرے ہر اک ستم کے منکر ہیں
یوں ڈراتے ہیں لوگ دوزخ سے
جیسے اس کے کرم کے منکر ہیں
وصل کا اک یقین کامل ہے
اس لئے چشمِ نم کے منکر ہیں
ان کو منزل تو مل نہیں سکتی
وہ جو پہلے قدم کے منکر ہیں
بس تیرے ہجر نے رلایا تھا
عامیانہ الم کے منکر ہیں
داد اس سادگی پہ بنتی ہے
بم گراتے ہیں بم کے منکر ہیں
نفرتوں کا ہجوم ہے ہر سو
سب وفا کے دھرم کے منکر ہیں
وہ جو آئے تمہاری یاد بغیر
ہم اسی ایک دم کے منکر ہیں
ساتواں ہو کِسے یہاں اعجاز
ہم تو پہلے جنم کے منکر ہیں