جو اپنے سوا دوسروں کوسمجھتے ہیں بدھو
ایک دن انہی کے ہاتھوں وہ بن جاتے ہیں الو
سردیوں کی طویل راتوں میں جاگتےجاگتے
صبح سردی کے مارے انہیں ہو جاتا ہے فلو
پھر ان کی فقط اتنی سی ہوتی ہےآرزو
اے کاش کے کہیں سے مل جائے ٹشو
میری شاعری کا اپنا ایک منفردانداز ہے
میں اپنے منہ کبھی بنتا نہیں میاں مٹھو
ایک مدت سے میری دلی خواہش تھی
کےکبھی میرے خلاف اپنا قلم اٹھائے تو
تم کیا جانو میں کتنا فراخ دل انسان ہوں
جو انگلی پکڑےاسےتھمادیتا ہوں بازو
مجھےتم پہ غصہ نہیں بلکہ رحم آتا ہے
کہ اصغر میرپوری سے کتنا جلتا ہے تو