جو اگر ابتدا کرے کسے رلانے کیلئے
اُسے کچھ بھی نہ چاہیے بہانے کیلئے
اشک آنکھوں میں اٹکے ہی رہے
کوئی دامن نہیں ملتا گرانے کیلئے
غم کی ظرافت سے راستہ نہیں ملتا
ترس گیا ہے مسافر ٹھکانے کیلئے
اُس شور و غل سے باہر جب آئے
تنہائی نے گھر دے دیا ترسانے کیلئے
کیفیت نے راہ کو اشارہ جو کیا تھا
کہ ثابت قدم رہو خود کو چلانے کیلئے
اُس نے امید دے کر ٹھہرادیا سنتوشؔ
میں نے سوچا نہیں تھا جینے کیلئے