سمجھے ہو جسے وقت کی رسوائیوں میں گم
دل ہے کسی کے حسن کی رعنائیوں میں گم
بہتر ہے اپنی ذات میں بن جاؤ انجمن
یہ کیا کہ عمر بھر رہیں تنہائوں میں گم
میں چیخ رہا تھا ترے شہر نشاط میں
آواز میری ہو گئی شہنائیوں میں گم
رکتی نبض کو دیکھ کے بولا یہ مسیحا
یہ ہو رہا ہے جلد شناسائیوں میں گم
پائیں گی وہی گوہر نایاب سیپیاں
جو ہو گئی ہیں بحر کی گہرائیوں میں گم
چھیڑو نہ ابھی خلد بریں کا معاملہ
میں ہوں ہنوز تلخ سی سچائیوں میں گم
سوچوں کا ہر کواڑ کھلے ایک ہی جانب
عمر رواں ہے آپکی پرچھائیوں میں گم
تعبیر اسے میری ہتھیلی پہ ملے گی
جو خواب ابھی ہےتری انگڑائیوں میں گم