لُٹیں جو حسرتیں تو دِل کو ہم نے تھام لیا
ملا قرار ہمیں جب تمہارا نام لیا
نہ ہم سمیٹ سکے اپنے آپ کو لیکن
یہ کیا کہ دُور سے گرتے ہوو ¿ں کو تھام لیا
تمام شہر میں بکھرے ہوئے ہیں پروانے
یہ کس شمع نے ہے لُٹنے کا انتقام لیا
فریبِ عشق دیا حسن کی وساطت سے
یہ کچھ عجیب سا یزداں نے ہم سے کام لیا
نہ سُکھ کی روشنی برسی نہ دُکھ کے ابر گھِرے
بس ایک برق سی لپکی جو تیرا نام لیا
تمہیں بتائیں تو کیا رات کے مسافر نے
جو دِل کا خون کیا تب سحر کا نام لیا
تمہاری کھوکھلی خوشیوں سے لاکھ بہتر ہے
کہ ہم نے آہ بھری ا ور دِ ل کو تھام لیا