جو ذرا سے بات کو سبب بنا دیتے ہیں
وہ لوگ اپنی دنیا الگ بنا دیتے ہیں
کچھ درپن میں آجائے خیال رکھ کر
پورا جیون بے لطف بنا دیتے ہیں
دنیا جلوا گری میں دلپذیر ہوکر بھی
یوں عبث زندگی غضب بنا دیتے ہیں
ہر راہ کا گذر ہے کانٹوں سے تو یہ
کیسی منزل کا حدف بنا دیتے ہیں
کب بھرتے ہیں درز پرانے کہ
وہ آہوں کا اتنا عجب بنا دیتے ہیں
گلناز نظارے اب یہاں آکر برسوں
ہم دل سے دل ملا کر جنت بنا دیتے ہیں