محال ہو تو بھلا زندگی کی حسرت کیوں
جو راس آ نہ سکے اس خوشی کی حسرت کیوں
بھلا سکوں گا نہ غم مے کدے میں بھی جا کر
تو سوچتا ہوں کہ پھر بے خودی کی حسرت کیوں
یہ پھول ڈالی سے ٹوٹا تھا آج وقت سحر
ہوئی ہے شام تو اب تازگی کی حسرت کیوں
ہوئے ہیں عشق میں برباد کتنے ہی عاشق
یہ جانتے بھی ہوئی عاشقی کی حسرت کیوں
وہ بدگماں کہیں نالاں نہ مجھ سے ہو جائے
ہے اس سے آج نئی دل لگی کی حسرت کیوں
اندھیرے جن کے ہیں ذہنوں میں خاک دیکھیں گے
کریں تو ان کے لیے روشنی کی حسرت کیوں
رہے جو تیرا عدو تیرا پیار پا کر بھی
تو ایسے شخص سے ہو دوستی کی حسرت کیوں