جو سر جھکا کے ترے سامنے کھڑا ہوا ہوں
میں زندگی کے لیے جا بجا مَرا ہوا ہوں
زمانے بھر میں مرا قحط پڑ گیا تو کُھلا
کسی کے پاس مَیں بہتات میں پڑا ہوا ہوں
بڑھاؤ خوف ذرا اور تا کہ خوف اترے
مجھے مزید ڈراؤ کہ میں ڈرا ہوا ہوں
نئی خبر سے نیا واقعہ نہ بن جائے
پڑھا گیا وہ نہیں ہوں جو میں لِکھا ہوا ہوں
نہ پوچھ کیسے خزاؤں کو میں نے سبز کیا
تُو مسکرا کہ تری شاخ پر ہرا ہوا ہوں
ادا بہ حسبِ تمنّا نہیں ہوا زائر
میں فرض ہوتے ہوئے بھی بہت قضا ہوا ہوں