جو سرور تھا جو سکون تھا کبھی پیار میں
وہ نہ مل سکا کہیں چین میں نہ قرار میں
یونہی زندگی نہ پھنسی دکھوں کے مدار میں
کبھی چار دن تھے گزارے کوچہء یار میں
میں ازل سے مٹی تھا مٹی کے ہوں مدار میں
مجھے یوں بھی ملتا ہے چین گرد و غبار میں
میری عمر گزری جو ہجر میں غم و درد میں
مجھے عار کیسے ہو بعد مرگ مزار میں
تبھی مبتلا ہوں میں رتجگوں کے عذاب میں
کئ دن گزارے ہیں الفتوں کی بہار میں
جسے روز آ کے ملے خدا کوہ طور پر
کرے کیوں بھلا وہ عبادتیں کسی غار میں
میرے قاتلوں کا خطا گیا جو ہر ایک وار
کسی پاک ہستی کی ہوں دعا کے حصار میں
مجھے پیار مل نہ سکا کبھی مجھے غم نہیں
مجھے فخر ہے کہ ہوں غم زدوں کے شمار میں
وہ جو باقرؔ ایسی ہی چھوڑ کر مجھے چل دیا
یہ بتا تو دیتا کمی تھی کیا مرے پیار میں