جو شخص بظاہر بتِ غافل کی طرح ہے
وہ جانِ وفا زیست کے حاصل کی طرح ہے
بس مانگے تری دید کی خیرات صبح و شام
دل گویا مرا کاسۂ سائل کی طرح ہے
طائر کی طرح درد کے پنجرے میں مرا دل
رنجور ہے ،مہجور ہے ، بسمل کی طرح ہے
کر دیتا ہے جو رنج سے پھولوں کے جگر چاک
نالہ مرا فریادِ عنادل کی طرح ہے
مہکا ہوا رہتا ہے سدا تیری مہک سے
د ل میرا تری یادوں کی محفل کی طرح ہے
یہ جان کے دل میرا کوئی خوش تو نہیں ہے
برباد ترا گھر بھی مرے دل کی طرح ہے
پتوں پہ جو گرتی ہوئی رم جھم کی صدا ہے
سننے میں وہ بجتی ہوئی پائل کی طرح ہے
روتے ہوئے تاروں کو جو دیکھا تو لگا یوں
اشکوں کی چمک تاروں کی جھلمل کی طرح ہے
میں اس سے جدا ہو کے نہ جی پاؤں گی عذراؔ
میں لہر سمندر کی وہ ساحل کی طرح ہے