جو شہرِ دل میں یہ فِتنہ فساد باقی ہے
یُوں لگ رہا ہے تری کوئی یاد باقی ہے
میں شاعروں میں سراہا گیا ہوں خوب مگر
تری طرف سے جو ملنی ہے داد باقی ہے
کہ شہرِ سخن میں آجاو تمہیں سنبھالنے کو
سخن وروں کی صفوں میں کُشاد باقی ہے
میں تیرے بعد ابھی تک اکیلا رہتا ہوں
خیال و وہم میں اب انفراد باقی ہے
ترے اُدھار کا کھاتہ تو بند پڑا ہے مگر
شہر کہ لوگوں پہ ترا اعتماد باقی ہے
وہ آنے والے ہیں بیٹھو ابھی تو محفل میں
دلوں کو تھام لو تقسیمِ اَسناد باقی ہے
طرح طرح کے سوالوں سے شیخ ہیں برہم
یہاں تو لوگوں میں اب بھی تضاد باقی ہے
جسم کے سارے ہی اعضاء پہ تیرا قبضہ ہے
فقط جسم میں مرے قلبِ شاد باقی ہے