جو محفل سے اُن کی نکالے ہوئے ہیں
غمِ دو جہاں کے حوالے ہوئے ہیں
ذرا تیرے گیسُو جو بکھرے ہیں رُخ پر
اندھیرے ہوئے ہیں، اُجالے ہوئے ہیں
یہ کون آ رہا ہے، کہ سب اہلِ محفل
متاعِ دل و جاں سنبھالے ہوئے ہیں
بڑا صاف تھا، راستہ زندگی کا
تری زُلف نے پیچ ڈالے ہوئے ہیں
یہاں سیفؔ ہر دن قیامت کا دن ہے
وہ کس حشر پر بات ٹالے ہوئے ہیں