جو میری مرگ کا اعلان اس کو جاۓ گا
وہ میرے پاس بھی آیا تو مسکراۓ گا
یہ رسمِ دوستی ہے دوست آۓ قبر پہ تو
دو چار آنسو بہا کر چلا ہی جاۓ گا
مرے بغیر بھلا کس کو جانتا ہے وہ
جہاں بھی جاۓ گا قصے مرے سناۓ گا
یہی تو غم مجھے دن رات کھاۓ جاتا ہے
وہ کس سے کھیلے گا اب کس کو وہ ستاۓ گا
میں مان جاؤں گا خوش ہے مجھے گنوا کے وہ
کہ مجھ کو یار وہ جب بھول کر دکھاۓ گا
سنا ہے بچھڑے کبھی لوٹ کر نہیں آتے
مگر یہ وہم ہے مجھ کو وہ لوٹ آۓ گا
یہ میرا دعوی ہے باقرؔ میں مر گیا جس دن
کسی کے ساتھ بھی وہ کھل کے ہنس نہ پاۓ گا