جو چنی تھی راہیں اپنے شاد سے
جس پر دوڑنا پڑا بڑے جہاد سے
یہ غم کا فکر پھر نہ چلے کہیں
ہم ڈرتے ہیں تو تیری یاد سے
اختیار کی اُڑان بھی اتنی اچھی نہیں
خود مُکر جاؤ دل کے فساد سے
حسرتوں کے سبھی فضول عمل ہیں
ہم نے بچالئے اپنے گھر برباد سے
میری سوچ پہلے بھی مشکوک رہی تھی
کہ راز پوشیدہ نہ ہوئے رازدار سے
منتظری کا دیئا بھڑکتا تو ہے لیکن
اِسے کس طرح بچائیں بے جا باد سے