عالم میں کوئی بھی نہ معیوب نظر آیا
جو چہرہ نظر آیا محبوب نظر آیا
ہجرو وصل کے سارے جذبے امڈ پڑے ہیں
یوسف کو قافلے میں یعقوب نظر آیا
تیرے بغیر گلشن میں لو کا راج پھیلا
جس پھول کو بھی دیکھا معتوب نظر آیا
دل سامنے تمہارے جو بانکپن بھرا تھا
تنہائی میں وہ اکثر مجذوب نظر آیا
آنسو بہا کے ڈھانپا خاشاک تن کو فورا
شمع کو میرا جلنا کیا خوب نظر آیا
سچ بول کے جو دیکھا درپن میں اپنا پیکر
منصور سر زنداں مصلوب نظر آیا
وہ راستہ کہ جس پر تم دو گھڑی رکے تھے
ہر آرزو کا اب بھی مطلوب نظر آیا
جس میں بھی ذرا دیکھی ہے زندگی کی رونق
وہ لمحہ صرف تم سے منسوب نظر آیا
اس لمحے تیری آنکھوں کی ٹوٹ کے یاد آئی
جب بھی کوئی پرندہ مضروب نظر آیا