جو گزریں لمحہ لمحہ وہ صدائیں رقص کرتی ہیں
Poet: خورشید حسرت By: خورشید حسرت , Abbotabadجو گزریں لمحہ لمحہ وہ صدائیں رقص کرتی ہیں
یوں میرے دل کی ویراں میں خطائیں رقص کرتی ہیں
نظر کے خشک ساحل پر تمنائیں مچلتی ہیں
خیالوں میں تری گُم سی صدائیں رقص کرتی ہیں
بھڑکتی یاد کی خوشبو ہواؤں میں بکھرتی ہے
دلِ بے چین کی گہری صدائیں رقص کرتی ہیں
چمک اٹھتی ہے آنکھوں میں کوئی بھولی تمنا جب
محبت کی پرانی کچھ دعائیں رقص کرتی ہیں
نہ جانے کون سی خوشبو ہے جو ہر سُو بکھرتی ہے
دلِ حساس میں میرے صدائیں رقص کرتی ہیں
کبھی احساس کی بارش میں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
کبھی دل میں وہ سب تیری ادائیں رقص کرتی ہیں
خیالوں کی فضا میں خواب آہستہ بکھرتے ہیں
ادھوری نیند میں کیوں یہ دعائیں رقص کرتی ہیں
کسی خاموش لمحے میں جو پردہ دل پہ پڑتا ہے
دلِ نادم میں تھی جو،وہ خطائیں رقص کرتی ہیں
کبھی جو خواب بن کر دل میں اتری تھیں دعائیں سب
دلِ حسرت پہ وہ ساری سزائیں رقص کرتی ہے






