جو ہر پل چمکتی رہتی تھی آنکھیں
آج ُان آنکھوں میں حسرتوں کے سوا کچھ نا تھا
بہت دوربہت دور تھے ارمان ُان سے کہ
آج ُان آنکھوں میں آنسووں کے سوا کچھ نا تھا
نجانے وہ آنکھیں کسے ڈھونڈ رہی تھی جو
آج ُان آنکھوں میں انتظار کے سوا کچھ نا تھا
وہ چہرے کی مسکراہٹ کتنی جھوٹی لگ رہی تھی کہ
آج فقط ُان ہونٹوں پے دکھاوے کے سوا کچھ نا تھا
وہ رنگ جو گلابوں کی طرح سرخ ہوا کرتا تھا
آج زرد پتوں کی طرح ُاس میں کچھ نا تھا
وہ بھیڑ میں بھی کتنا اکیلا نظر آ رہا تھا شخص
جس کی باتوں میں آج رسوایوں کی سوا کچھ نا تھا
شمع جو ساری رات جل جل کے
بگھل گئی جب ُاسے غور سے دیکھا
تو ُاس میں فقط تیری لکی
حسرتیں دید کے سوا کچھ نا تھا
بڑے پیار سے دیے تھے گلاب ُاس نے مگر
وہ بھول گیا کہ ُان گلابوں میں کانٹوں کے سوا کچھ نا تھا
جو بدل گیا اک پل میں وقت کی طرح لکی
ُاس شخص میں تو محبتوں کے سوا کچھ نا تھا
جب بھی لکھنے بیٹھی تو لکھتی رہی مگر
بل آخر جب پڑا تو فقط اک شخص کی ذات کے سوا کچھ نا تھا