جو ہم سے گذر گیا اس کی راہ گذر کے کیا کریں گے
ایسے ہی موت کو بہانہ مل جائے تو آہ بھرکے کیا کریں گے
وہ اپنی اداؤں میں بے رخی کی قلت ہی نہیں چھوڑتا
پھر چنگل کی شوخیوں سے یوں ڈَرکے کیا کریں گے
میری بے فساد دھڑکنوں کو کوئی تھپکی جو لگا گیا
تو اٹھ چکا عشق کا علم اب چھپ کے کیا کریں گے
بڑی مفارقت سے شاید کوئی لوٹنے والا ہی نہیں
ہر تعیش کو بجھا دیا دریچے پہ بھڑکے کیا کریں گے
جہاں تختہ گل سے کانٹے ہی چننے پڑ گئے مجھے
تھا اگر مقدر کا فیصلہ تو مکر کے کیا کریں گے
اس ریزہ اشکوں میں تیرے غم کی شراکت بھی ہے
یہی میرے زندگی سنتوش اب رؤ کے کیا کریں گے