جوانی کی برف پگھلی مگر آہستہ آہستہ
کبھی تو آ کے لے میری خبر آہستہ آہستہ
سنہری گیسوؤں میں تار چاندی کے تیرے دلبر
بکھرتے جارہے ہیں غور کر آہستہ آہستہ
محبت ساتھ ہو عمر رواں کو پر سے لگ جائیں
نا ہو یہ پاس تو گزرے سفر آہستہ آہستہ
محبت یہ نہیں کے سامنے محبوب ہو ہر دم
تپش دل میں رہے سلگے جگر آہستہ آہستہ
اے عشرت وارثی آساں نہیں اس راہ پہ چلنا
سنبھل کے چل دہکتی راہ پر آہستہ آہستہ