جھمکا

Poet: . By: Shakila , Khanewal

غضب ڈھا رھا ہے
بادشاہ سلامت کا قہر
سردیوں کے دن میں
جیسے گرمیوں کی ہو دوپہر
کنیزوں کی سانسیں رکی ہوئی ہیں
خواجہ سرا ہراساں پھر رہے ہیں
کیونکہ وہ جھمکا نہیں مل رھا
جو کنیزوں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے
چھوٹی شہزادی کا گم ہو گیا ہے
خدام کنگھال چکے ہیں
محل کا چپہ چپہ، گوشہ گوشہ اور کونہ کونہ
بھربھری مٹی بھی چھانی جا چکی ہے
سب اس سوچ میں غلطاں و پیچاں ہیں
کہ آخر کہاں گیا ؟؟
چھوٹی شہزادی کا وہ جھمکا
اور بادشاہ سلامت کے پاس
سر جھکائے کھڑا وہ خادم خاص
دل میں یہ سوچ رہا ہے
کہ قسمت میں شہزادی نہ سہی
اس کا جھمکا ہی سہی

Rate it:
Views: 953
21 Apr, 2013