حسن سجتا ہی ہے سنگھار سے جھمکے لادو
مانگا ہے آج کچھ دلدار سے جھمکے لادو
سونے چاندی کے ہوں نہ ہوں بھلے پیتل کے
پاس کے ہی نئے بازار سے جھمکے لا دو
چھونا ہر بار ہی کانوںکو بڑے اندازکےساتھ
کہنا پھر اسکا وہی قرار سے جھمکے لا دو
موہ لیا کرتا ہے بے ساختہ میرا دل یو نہی
باز آنا نہیں کبھی تکرار سے جھمکے لادو
دیکھو دیکھیں گےنہیں جبتک نظربھر کے
بچنا چاہتے ہو تو انکار سے جھمکے لادو
سنجو کے نازک سی تیری یہ نشانی دل سے
پاس رکھیں گے بڑے پیار سے جھمکے لادو
آنسو بہنے کو ہیں چھوڑ دو اب ضد اپنی
مار ڈالیں گے اس ہتھیار سے جھمکے لادو
جانے دیں گےنہیں کہیں بھی وعدہ کے بناء
شرط ہے ایک ہی فرار سے جھمکے لادو