جھیل بھی بادل بھی ہے اور شام بھی
اور ہے میرے لب پہ تمھارا نام بھی
دین اور دنیا دونوں اسی میں ملے ہیں
عشق اپنی عبادت اورہے یہ کام بھی
تو سمجھ جا نا سمجھ اس کھیل کو
جیتا بھی ہوں اس میں اور ہوا ناکام بھی
اسکے ہونے کا بھی عجب احساس تھا
ل بھی دھڑکا سبب اور آیا آرام بھی
اسکی بارگاہ میں جاکے اک ہو جاتے ہیں
پیر بھی مرشد بھی آقا بھی غلام بھی
اسکی محفل کے سب آداب ہمکو آگئے
سر جھکایا مسکرایا کرکے آئے سلام بھی