مجھے کوئی جان کر کیا کرے گا
خود پہ خلل ڈال کر کیا کرے گا
تمہیں تو کوئی لمحہ لغزش نہیں دیتا
پھر یوں وقت ٹال کر کیا کرے گا
یہاں سنی نہیں جاتی صدا کسی کے
تو اتنے ستم پال کر کیا کرے گا
بدمستی میں ہی بسی ہے دنیا!
اپنا تن سنبھال کر کیا کرے گا
جہاں عمل کوئی ترتیب ہی نہیں
وہاں تو تسلسل لاکر کیا کرے گا
مزاج ہی پہلو پالیتے ہیں سنتوشؔ
تو پھر آنکھیں ملاکر کیا کرے گا