مری وفاؤں کا اچھا صلہ رہا ہے کوئی
کچھ اپنی زندگی بھی سانحہ رہا ہے کوئی
کہیں پہ درز ہے اور نہ ہی در کھلا کوئی
شدید حبس میں تازہ ہوا رہا ہے کوئی
جہاں برسنا ہے اس نے وہیں پہ برسے گا
لبوں کی پیاس بجھانے گھٹا رہا ہے کوئی
یہ میری سادہ دلی تھی کہ پیار کر بیٹھی
حسین خوابوں سے آخر نوا رہا ہے کوئی
قریب پا کے تمھیں تو بدل گئی دنیا
لگی یوں جھومتی گاتی ہوا رہا ہے کوئی
بہکتی سانسیں مچلتی ہوئی تمنائیں
نہ سونے دیں گی مجھے فاصلہ رہا ہے کوئی
مرے خیالوں میں پھر جلترنگ بجتی ہے
وہ آدھی رات کو جب بھی صدا رہا ہے کوئی
ہے احترام بھی دل میں مرے ، محبت بھی
پھر اپنے در سے بتا کیوں صدا رہا ہے کوئی
خبر نہ ہو گی اسے میرے پیار کی وشمہ
میں کہہ سکوں گی نہ اس کوصدا رہا ہے کوئی