جہاں بھی جاؤں میں مجھکو تمہاری یاد آتی ہے
ستاروں کی ذرا سی روشنی بھی دل جلاتی ہے
تمہیں چاہا تھا دل نے یوں کہ دنیا کو بھلا ڈالا
تمہاری یاد تو ہر نقش کو دل سے مٹاتی ہے
ویرانوں میں کہیں چھپ چھپ کے روتی آہ بھرتی ہے
نجانے کس لئے کوئل غموں کے راگ گاتی ہے
تمہی تو اک حوالہ تھے مری مجبور الفت کا
تمہی لیکن نہ آئے آنکھ میری بھیگ جاتی ہے
تمہیں شاید بہت مل جائیں گے میرے سوا ہمدم
مگر عورت ہوں عورت ایک ہی سے دل لگاتی ہے
کسی کی چاہ میں سارہ کیوں خود کو بھی مٹا ڈالا
کسی کی یاد کیوں شب بھر مجھے اتنا جگاتی ہے