جہاں درد ہیں ٹھہرے بڑی مدت لیئے
وہاں وقت کیوں نہیں ٹھہرتا ایک پل کیلئے
آنکھ نے تو بس اپنی کمالیت دکھا دی
مگر کتنی فکر بڑہ گئی ہے اِس دل کیلئے
آج خود کو سہلاکے بھی جی گیا ہوں
ہمیشہ زحمت رہی تو اُس کل کیلئے
تجاوزی میری سرپرست بن گئی ہے
کوئی فہم چاہیے اس کے حل کیلئے
میری بے پرواہی توجہ بھی کیا دیتی
اٹھی جو نظر تھی فقط قتل کیلئے
ان کے ارادوں کو دلگیر نہ کر سکے
کسی کو زندگی چاہیے تھی شغل کیلئے