اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
عشق میں ڈوب کے مر جانے کو جی چاہتا ہے
لوگ ایسے بھی ملے ہم کو یہاں جیون میں
ان کے چہروں سے ہی ڈر جانے کو جی چاہتا ہے
کتنے زخموں سے تجھے چور کیا تھا اس نے
اب بھی کیوں تیرا ادھر جانے کو جی چاہتا ہے
میں جو چاہوں تو کہیں کا بھی نہ چھوڑوں اس کو
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
تھک گیا ہوں میں تری خام خیالی سے بہت
زندگی اب تو سنور جانے کو جی چاہتا ہے
اب تلک جو بھی ہوا بھول گیا ہوں میں بھی
اب یہاں پر ہی ٹھہر جانے کو جی چاہتا ہے
خاک چھانی ہے زمانے کی مگر اب ارشی
اب مرا لوٹ کے گھر جانے کو جی چاہتا ہے