جیسے کہ دل سے دل نے کوئی تار کھینچ لی
اُس نے اُڑان سے مِری رفتار کھینچ لی
اُونچے سَروں پہ زعم ہے تُجھ کو تو سُن ذرا
کِتنے سَروں سے وقت نے دستارکھینچ لی
دل کے کہے پہ میں نے جو اظہار کردیا
اُس نے تو میری بات پہ تلوار کھینچ لی
تکمیل پارہا تھا اِک جیوَن کا دائرہ
پھر یوں ہوا کہ وقت نے پرکار کھینچ لی
مجھ سے اُلجھ کے شہر کے اِک بد زبان نے
چھوٹی سی بات پر بڑی تکرارکھینچ لی
ہم سست سست چلتے رہے پیچھے رہ گئے
لیکن نوید وقت نے رفتار کھینچ لی