جیسے گلدان میں گل چن کے سجا کر رکھوں
کوئی چہرہ ہو جو چہرے سے لگا کر رکھوں
جتنا سمجھوں میں تجھے اور نہ سمجھے کوئی
تیری ہر بات زمانے سے چھپا کر رکھوں
بڑی مشکل سے ملاقات کا لمحہ آیا
کیوں ملاقات کو پھر کل پے اٹھا کر رکھوں
دشمنی کا بھی زمانے سے سبب تم ہی تھے
تم کہو اب تو زمانے سے بنا کر رکھوں
میں ہی میں دیکھوں تجھے اور نہ دیکھے کوئی
ساری دنیا سے تجھے دل میں چھپا کر رکھوں