جینے لگا ہوں میں تیری بے رخی کے ساتھ
جیسے تعلق ہو کسی اجنبی کا اجنبی کے ساتھ
وہ مطمئن ہے کہ میں لگتا ہوں بہت خوش
دھوکہ پھر سے دے دیا اسکو ہنسی کے ساتھ
جب تک میں سمجھ پاتا محبت ہے یا کہ کھیل
وہ کھیل گیا مجھ سے بڑی دل لگی کے ساتھ
آشوبِ چشم پھیلا ہے کیا سارے شہرمیں
جو بھی ملا وہ ملا آنکھوں میں نمی کے ساتھ
بازارِ عشق کی رسم بھی کیاخوب ہے شکیلؔ
اک بار بِک گیا وہ نہ بِکا پھر کسی کے ساتھ