حاشیے اپنے زِیر و زَبر بھی ہوئے
Poet: imran Gohar By: imran Gohar, Faisalabadایک گُل کیا گِرا ہاتھ سے چھوٹ کر
ہم کو تیرے بچھڑنے کی یاد آ گئی
دل جُڑا ہی نہیں تھا ابھی ٹوٹ کر
پھر سے تیرے بچھڑنے کی یاد آگئی
آنکھ سُونا نگر آب گھر ہو گئی
ہر دوا ہر دعا بے اثر ہو گئی
رُخ بہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو نہریں اِس درجہ بے خود بہیں
بس اِرادہِ سبقت میں بہتی گئیں
اِیک گُل ہی تو تھا کیا ہوا گِر گیا
دستِ لاغر سے ایسا جُرم کیا ہوا
جس پہ ہر حصہ بدنی ہوا مُنتشر
ایسی دُرگت میں کیا کیا ستم نہ سہے
ہم بساَ بار بلدہ بدر بھی ہو ئے
ایسا ہرگز نہیں تُجھ کو ڈھونڈا نہیں
ہم تیری کھوج میں دربدر بھی ہوئے
ہم تیرے بعد ایسے بھی زندہ رہے
تھے سرِبام زیرِ قبر بھی ہوئے
ہم نے شب کی سیاہی کو کوسا نہیں
ہم وہی تھے جو پہلے سحر بھی ہوئے
خود کو سمجھایا بھی بے صبر بھی ہوئے
دل تیرے واسطے آب و بر بھی ہوئے
ہر قدم پر زمانے کا دھڑکا بھی تھا
پُر خطر دور میں بے خطر بھی ہوئے
نام پر حرف تیرے نہ آیا گوہر
حاشیے اپنے زیر و زبر بھی ہوئے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






