کیوں نا محبت کا راز افشاں کر لوں
بھری بزم میں حال دل بیاں کر لوں
جس ظالم نے کئی سالوں سے تڑپایا ہے
آج اس کا نام کیوں نا سر محفل عیاں کر لوں
ایک دن وہ بھی مجھے چاہنے لگے گا
کیوں نا دل میں ایسا گماں کر لوں
سوچتا ہوں خاموشی سے پی لوں زہر جدائی
بند کمرے میں بٹھ کےآہ وفغاں کر لوں
اب سدا کے لیے ترق تعلق کر کے
اپنی محبت کو اک بھولی ہوئی داستاں کر لوں
آج کیوں نا کسی اور سے اظہار محبت کر کے
اپنی امنگوں کو ایک بار پھر جواں کر لوں
میں کسی دوست کو اداس نہیں دیکھ سکتا
سوچا مذاق ہی مذاق میں انہیں پریشاں کر لوں