حالات کے تناظر میں
اک ناز پری کبھی آئے گی
میری الجھن کو ُسلجھائے گی
وہ چاہے گی میرے جیون کو
کبھی دُور کرے میری تڑپن کو
کبھی تیز کرے میری دھڑکن کو
کبھی دل سینے سے باہر ہو
کبھی سینے میں دل کو سجائے گی
اک ناز پری کبھی آئے گی
کبھی چاہت پر مجبُور کرے
وہ مُجھ کو کبھی مخمور کرے
پھر نشے کو مُجھ سے دُور کرے
کبھی سُلجھن کو ا ُلجھائے گی
کبھی اُلجھن کو سُلجھائے گی
اک ناز پری کبھی آئے گی
کوئی زخموُں پر مرہم رکھ دے
میرے ہونٹوں پہ تبسم رکھ دے
کوئی دل سے باہر غم رکھ د ے
چُپکے سے کبھی آکر قیصر
میری دُلھن وہ بن جائے گی
اک ناز پری کبھی آئے گی