حسرت دل کا عنوان ہوتی جا رہی ہے
میری حالت تو درمان ہوتی جا رہی ہے
وقت نے آکر کس سمندر پہ چھوڑا
کو ہر موج طوفان ہوتی جا رہی ہے
اُس کے جانے کے بعد سناٹا سا چھاگیا
آباد یہ نگری ویراں ہوتی جا رہی ہے
میں کس طرح سے دل کو بہلاؤں
یہاں ہر گھڑی امتحان ہوتی جا رہی ہے
محبت کے تبادلے میں مات ملی مجھ کو
زندگی موت پہ مہربان ہوتی جا رہی ہے