حسرت کراہ مانگ تھی جسے دعا کہتے ہیں اکثر
تیری غم گساری سے نکلی اُسے صدا کہتے ہیں اکثر
وہ بکھرنے کا انتشار تیرے زلفوں میں بھی تھا
اُس بارشوں کے پہلے اندھیرے کو گھٹا کہتے ہیں اکثر
یہی ایک وجد جس میں غرض کا شائبہ نہیں
پھر بھی عشق عزم کو کیوں خطا کہتے ہیں اکثر
وہ نقل و شرب ہواؤں سے لیکر سانسوں میں پھیلی رہی
اور کون سی ہے تسکین جسے شفا کہتے ہیں اکثر
کئی ایسی باریکیاں جو کفارہ پذیر ہی نہیں مگر
اپنی جفائی ڈھانپ کر لوگ مجھے بے وفا کہتے ہیں اکثر
ثنا خوانی بھی کسی کی فطرت ہوتی ہے سنتوشؔ
یہ نوع انسان کیوں اُسے یوں فدا کہتے ہیں اکثر