حسرتِ شب کو مار دوں گی میں
زندگی یوں گزار دوں گی میں
بیچ کر میں یہ زندگی اپنی
تیرا قرضہ اتار دوں گی میں
بےقراری مجھے رہے گی مگر
تیرے دل کو قرار دوں گی میں
اپنی گم گشتہ دوستی کا کبھی
شہر میں اشتہار دوں گی میں
پہلے نقصان ہو چکے ہیں بہت
اب نہ تم کو ادھار دوں گی میں
قسم جاتے ہوئے دسمبر کی
جنوری کو سنوار دوں گی میں
تُو خزائیں یہاں مسلط کر
وشمہ بادِ بہار دوں گی میں