حسن اور عشق میں کہتے ہیں کوئی مات نہیں
میرے پہلے سے محبت کے وہ حالات نہیں
اے غمِ ہجر ابھی اٹھ نہ مری محفل سے
دل کے عالم میں ابھی دن ہے کوئی رات نہیں
کیا ضروری ہے تمہیں بات میں پھردل کی کہوں
ایک ادھوری سی تمنا تو کوئی بات نہیں
کبھی سوچا ہے مری جان میں مر سکتی ہوں
کیسے گزرے گی مری زیست ،ترا ساتھ نہیں
اب تو پہنے ہی نہیں ہاتھ میں کنگن کب سے
میرے ہاتھوں میں ترے پیار کا جب ہاتھ نہیں
پیار تو دور کی خواہش تھی اے جانِ وشمہ
اپنے حصے میں کسی غم کی بھی برسات نہیں