حسن جو چاہے مجھ سے لکھوا لے
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillچاند مدھم ہے بڑھ گئے ہالے
دل سنبھلتا نہیں ہے سنبھالے
دیکھتا ہی نہیں تڑپتا وہ
درد سینے میں کوئی کیا پالے
ہم تو تیار ہیں گزرنے کو
آگ تھوڑی سی اور دھکا لے
اے میری روح جلدباز نہ بن
ظلم کچھ اور حسن فرما لے
عجیب حال ہے اہل جنوں کا
لب پہ مسکان ۔ پاؤں میں چھالے
عشق اتنا بھی ضروری کب ہے
آدمی زندگی کو گہنا لے
تو نے دو حرف بھی روا نہ کئے
ہم نے روح تک میں تیرے غم پالے
راستہ تک رہی ہیں تعبیریں
میرے سانچے میں خواب کو ڈھالے
تیرا موہوم سا خیال آیا
آنکھ میں گھومنے لگے جالے
شمع کی روشنی کا کیا کہنا
اک شرر ہے ہزار متوالے
شکوہ کرنا ہماری ریت نہیں
کھولیں گے نہ زبان کے تالے
جانا چاہو تو ہم نہ روکیں گے
اور کچھ دن جنوں کو مہکا لے
اتنا چاہا ہے ٹوٹ کر تجھ کو
قیس بھی دیکھ لے تو غش کھا لے
تیرا آنا ہی تھا مے خانے میں
مے کے وجدان سے گرے پیالے
آج لفظوں پہ لہر آئی ہے
حسن جو چاہے مجھ سے لکھوا لے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






