حسن گر پھول ہے تو پھول کو مرجھانا پڑتا ہے
اگر یہ چاند ہے تو چاند کو چھپ جانا پڑتا ہے
جو کرنا چاہتے ہو تم تو سیرت کی کرو پوجا
ارے صورت تو فانی ہے اسے دفنانا پڑتا ہے
زمانے کے فریبوں سے مچل اٹھتا ہے جو اکثر
یہ دل نادان ہے اس کو ذرا بہلانا پڑتا ہے
ہوس کے دور میں اخلاص کی باتیں تعجب ہے
یہ سب ماضی کے قصے ہیں انہیں ٹھکرانا پڑتا ہے
وہ کیا دلکش زمانے تھے جہاں تھی لاج قسموں کی
انہیں مشکل نہ تم سمجھو فقط اب کھانا پڑتا ہے
زریں دن رات کیوں کرتا ہے الفت کی یہاں باتیں
یہ ہے کس دیس کا باسی اسے سمجھانا پڑتا ہے